تعلیمات : حضرت صوفی مسعود احمد صدیقی لاثانی سرکار رحمتہ اللہ علیہ
جب تک سالک اپنے اندر طلب اور جستجو پیدا نہیں کرے گا وہ اپنے مقصد کو نہیں پا سکتا اور اپنے مقصد (طلب) کا شیخ سے اظہار تو سالک کیلئے بہت ضروری ہے۔ سالک کو چاہیئے کہ ہمیشہ صرف ذات کی طلب دل میں رکھے، مقام و مرتبہ یا انعامات کی خواہش ہرگز دل میں نہ لائے کیونکہ جنکی توجہ انعامات کی طرف ہوتی ہے انہیں انعامات (مقام و مرتبہ) دیکر فارغ کردیا جاتا ہے لیکن جو صرف ذات کے طالب ہوتے ہیں انہیں مقام و مرتبہ تو انعام کے طور پر عطا کیا جاتا ہے اور مقام خاص (قرب خاص) سے بھی نوازا جاتا ہے. از: روحانی نکات)
محبت ایک نور ہے جو ہر گناہ کو جلا کر راکھ کر دیتا ہے۔
محبت اور عشق کتابوں سے حاصل نہیں ہوتا ہے یہ دل کے لگاؤ کی بات ہے جتنا بڑھاؤ گے اتنا ہی بڑھے گا۔
محبت قربانی مانگتی ہے صرف زبانی باتوں سے بات نہیں بنتی ہے اور محبت وہی ہے جس میں اعتراض نہ ہو ۔
اللہ تک عقل ودلائل کے ذریعے نہیں عشق و محبت کے ذریعے پہنچا جا سکتا ہے عقل چراغ راہ تو منزل نہیں ہے۔
سچے اور مخلص طالب کبھی تباہ نہیں ہوتے۔
ایک مرتبہ میرے قبلہ و کعبہ سیدنا صدیقی لاثانی سرکار رحمتہ اللہ علیہ نے ارشاد فرمایا!
"انسان اپنی حقیقت پر غور نہیں کرتا۔ بندے اور خدا کے درمیان یہی سب سے بڑا حجاب ہے(خودی کا حجاب)۔ بندے کو چاہیے کہ اپنی اوقات کو پہچانے اور اپنی تخلیق(پیدائش) پر غور کرے۔ اپنے آپ کو بڑا سمجھتا ہے اور زمین پر اکڑ کر چلتا ہے۔ اس کا اکڑ کر چلنا زمین کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ وہ تو اس قدر بے بس ہے کہ مکھی اس کی خوراک سے ایک ذرہ کے کر اڑ جائے تو وہ اسے واپس نہیں لے سکتا".
ایک مرتبہ بارگاہ الٰہی میں عرض کی کہ یا اللہ! تمام اہل سلسلہ پر اپنا خاص کرم و فضل فرما اور اپنے راضی ہونے کا طریقہ بھی ارشاد فرما۔
فرمان ہوا!" ہر چیز میرے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں پیش کرتے رہو"۔ اس فرمان سے واضح ہوا کہ ہر چیز یعنی اپنی جان و مال،عزت وغیرہ محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں پیش ہو۔ اسی طرح اگر کوئی چیز خیرات کرنا ہو تو پہلے ختم شریف پڑھ کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں پیش کی جائے ازاں تقسم کی جائے۔ اس طرح حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں صلوتہ والسلام کے نذرانے پیش کرتے رہیں۔ اس سے اللہ تعالیٰ خوش ہوتے ہیں اور اپنا خاص فضل و کرم فرماتے ہیں۔
(رہنمائے اولیاء مع روحانی نکات )
لوگ حقیقت و انجام پر نظر نہیں رکھتے۔ اللہ تعالیٰ کے ابدی ودائمی خزانوں کے متعلق غور نہیں کرتے۔ اس چند روز زندگی کے مصائب و مسائل کو بہت بھاتی سمجھتے ہیں ور قبر و حشر کی وحشت و حولناکی کو فراموش کیے ہوئے ہیں۔ اگر ہماری برزح(قبر) کی زندگی(جو قیامت آنے تک ہے) آرام دہ ہو جائے اور آخرت میں بھی بخشش و نجات کا پروانہ ملنے کی بشارت مل جائے تو اس مختصر زندگی کے مسائل و مصائب کچھ حقیقت نہیں رکھتے
ہمارا ہر سانس اللہ کی نعمت ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم ہر وقت پنا محاسبہ کرتے رہیں ورنہ جب حضرت عزرائیل علیہ السلام آ جائیں گے اور کہیں گے کہ آ جا تیرا وقت ختم ہو گیا ہے۔ پھر سوچیں گے کہ اللہ! اگر ہمیں کچھ وقت مل جاتا تو ہم تیری راہ میں سب کچھ قربان کر دیتے،یہ بھی اور وہ بھی ۔ اللہ جل شانہ فرمائے گا کہ تیرے سامنے لوگ(تیرے عزیز واقارب) مر رہے تھے کیا تجھے پتہ نہیں تھا کہ تیرا بھی وقت ختم ہو جائے گا اور تجھے پکڑ لیا جائے گا کہ بس اب آ جا۔
ایک مرتبہ خواب میں فرمان الٰہی ہوا کہ
آج کل لوگوں میں سالگرہ کے موقع پر لہو لعب اور ناچ گانے کا رواج بہت بڑھ گیا ہے جو غلط طریقہ ہے اور ہمیں یہ پسند نہیں۔ تم اسکی مخالفت میں اس دن(سالگرہ کے دن) اللہ کے ذکر کی محفل کا انعقاد کرو۔ یہ بات دوسروں کو بھی بتا دو کہ وہ بھی یہ طریقہ اپنائیں، سابقہ گناہوں کی معافی مانگیں اور آئندہ کیلئے دعائیں کریں پھر ہر چیز کا فائدہ ہوگا"۔ عام طور پر اس قسم کی تقریبات میں وقت اور پیسے کا ضیاع ہوتا ہے۔ اس لئے اس سے منع فرمایا گیا اس کے برعکس ذکر الٰہی کی محافل دین و دنیا میں باعث خیر و برکت ہیں اس لئے اس کا حکم فرمایا گیا۔( رہنمائے اولیاء مع روحانی نکات)
ایک مرتبہ (صوفی مسعود احمد صدیقی لاثانی سرکار صاحب دامت برکاتہم العالیہ) نے طالبین حق کے ساتھ گفتگو فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا!
اللہ تعالیٰ اور رسول صلیٰ اللہ علیہ وسلم کے ہر حکم ہر بات پر بارضا ورغبت سر تسلیم خم ہو یعنی ہر حکم کو قلب و روح کی گہرائیوں سے تسلیم کرتے ہوئے باطنی رضا حاصل کر لو۔ اگر ہماری باطنی حالت ایسی ہوگئی تو سمجھ لیں سب کچھ مل گیا،اسی میں تمام عطائیں پوشیدہ ہیں اور یہی اصل میں روحانی تقی ہے۔ اگر ہم احکامات پر عمل کرنے کی کوشش کرتے رہیں تو پھر خودبخود سب کچھ ملتا رہے گا۔ اگر باطنی کیفیت ایسی نہیں ہوئی تو کتنی مرضی عبادتیں ،ریاضتیں کرتے ہو، مجاہدے کرتے رہو سب ختم ہو جائے گا کچھ ہاتھ نہیں آئے گا
"جب تک سونے کی تراش خراش نہ ہو وہ قابل استعمال نہیں ہوتا اسی طرح سالک کو مشکلات اور آزمائشوں سے مظبوطی حاصل ہوتی ہے"۔
"بندہ اپنی اصلاح و بہتری کا ارادہ (نیت) ہی کرتا ہے کہ کرم شروع کا جاتا ہے۔ جبکہ گناہ کرنے کی سوچ آنے یا گناہ کی نیت ہر پکڑ نہیں ہوتی جب تک کہ وہ گناہ نہ کرے۔ یہ اللہ جل شانہ کا فضل ہے"۔
"ایسا طالب حق جسے فقیری کے لیے چن لیا گیا ہو وہ حق میں بار بار قربان ہوتا ہے۔ کیونکہ اس پر قربانی دینا (راہ سلوک میں) فرض ہوتا ہے۔ لیکن اس کے اخلاص و محبت میں ذرہ بھر کمی نہیں آتی۔ یہ درحقیقت ذات کی معرفت اور سچی محبت کا نتیجہ ہوتا ہے۔ جب وہ مخلص ہو کر قربانی دیتا رہتا ہے تو پھر اللہ رب العزت بھی ایسا نوازتے ہیں کہ اس کی سوچ، ارادے،نظر اور اشارے سے تقدیریں بدل جاتی ہیں۔
"اللہ اب العزت سالک فقیر کی شدید محبت اور اس پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصی نظر کرم کو دیکھتے ہوئے قرب خاص کے لئے منظور فرما لیتے ہیں اور اپنے درکار"فقیر" بنا کر"ابدی قرب" کے لئے بھی خاص فرما لیتے ہیں۔ اسی دائمی قرب کی بدولت وہ محفوظ پناہ گاہ میں آ جاتا ہے۔ پھر نہ اسے کوئی خوف ہوتا ہے اور نہ ہی کوئی غم کیونکہ وہ معرفت خداوندی میں مست ہو جاتا ہے"۔
("راہنمائے اولیاء مع روحانی نکات")
جب گھر میں بچوں کیلئے کھانے کی کوئی چیز (پھل،مٹھائی،کھانا، وغیرہ) کے کر جائیں اور گھر میں بھی کھانا کھانے بیٹھیں تو"ختم شریف(اول و آخر درود شریف ایک دفاعی سوری فاتحہ اور تین مرتبہ سورئہ اخلاص) پڑھ کر بزرگوں کو نذرانہ بھیج کر کھائیں۔ ایسا کرنے سے بزرگوں کی(روحانی) توجہ ملتی ہے اور کھانے میں بھی نورانیت پیدا ہو جاتی ہے۔جب بچے یا بڑے وہ کھانا کھائیں گے تو فرمانبردار،نمازی اور اچھی عادات کے مالک بنیں گے۔
(رہنمائے اولیاء مع روحانی نکات )
میں اور اہل سلسلہ اپنی محافل اور انفرادی طور پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر ان القابات (سیدنا،نبینا، رسولنا،کریمنا،محبوبنا وغیرہ) کے ساتھ دورد شریف پڑھتے تھے۔ ایک مرتبہ خواب میں میرے آقا حضور پُرنور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور ارشاد فرمایا! "تم اور سلسلہ والے ہمیں مختلف ناموں سے پکارتے ہیں، یہ ہمیں بہت اچھا لگتا ہے اور یہ کہ
ہم رؤف اور رحیم بھی تو ہیں ہمیں ان ناموں سے بھی پکارا کرو"۔
اسی دن سے میں نے آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کے حکم پر عمل شروع کر دیا اور اہل سلسلہ کو بھی مطلع کر دیا۔
(راہنمائے اولیاء مع روحانی نکات )
ایک مرتبہ اللہ رب العزت کا فرمان ہوا!
"ٹوٹے ہوئے برتن(کپ،پیالیاں،پلیٹیں اور ڈونگے وغیرہ جن کے کنارے ٹوٹے ہوئے ہوں)استعمال نہ کئے جائیں۔" میں نے رہائش گاہ اور لنگر خانے میں بھی سب کو یہ خواب سنادیا۔ اس کے چند ماہ بعد دوبارہ فرمان ہوا! "آستانہ پر ٹوٹے ہوئے برتن استعمال ہو رہے ہیں"
اس کے بعد میں نے خود جا کر برتن چیک کئے تو دیکھا کہ لنگر خانے میں کچھ برتن ایسے رکھے ہوئے ہیں جنکے کنارے ٹوٹے ہوئے نہیں لیکن وہ کچھ تڑکے(Damage) ہوئے ہیں۔ ان میں لائنیں آئی ہوئی تھیں، خادمین نے بتایا کہ یہ ہم نے اس لیے رکھ لئے کہ انہیں خشک چیزوں(چینی، آٹا وغیرہ) کیلئے استعمال کرلیا کریں گے۔ میں نے وہ برتن اپنے سامنے ضائع کروادیئے۔
(روحانی نکات"، از: حضرت صوفی مسعود احمد صدیقی لاثانی سرکار)
قبلہ لاثانی سرکار دامت برکاتہم نے مراقبہ کی مثال دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:
جب ہم ریڈیو چلاتے ہیں تو ہمیں آواز اس وقت تک سنائی دیتی ہے جب تک ہم سوئی کو درست مقام پر رکھتے ہیں معمولی سی بھی ادھر ادھر ہو جائے یا اپنے مقام سے ہٹ جائے تو آواز صاف سنائی نہیں دیتی کبھی آواز بلکل بھی نہیں آتی ۔جیسےہی سوئی صحیح مقام پر آتی ہے تاریں آواز کی لہروں کو کیچ کرنا شروع کر دیتی ہیں۔ اسی طرح اگر دل کا انٹینا درست کر لو گے تو انشاء اللہ آواز بھی سنائی دے گی اور تصویر بھی صاف نظر آئے گی۔ توجہ اور تصور میں جتنی یکسوئی ہو گی اتنی ہی جلد رابطہ روحانی تعلق قائم ہو جائے گا۔
1- ذات کے تصور میں محویت و استغراق مراقبہ کہلاتا ہے۔
2- مراقبہ کا عمل سالک کے ظاہر و باطن کو منور کر دیتا ہے۔
3- مراقبہ کرنے کا مقصد یہ ہے کہ مرشد کامل کے ساتھ روحانی روابط قائم ہو جائے۔
4- جس طرح نماز مومن کی معراج ہے اس طرح مراقبہ طریقت کی نماز ہے یعنی مراقبہ مومن کی روحانی معراج ہے۔
5- مراقبہ سے طالب کا قلب جاری ہو جاتا ہے۔ صاحب مراقبہ کے ہر عمل میں اللہ رسول صلیٰ اللہ علیہ وسلم کی رضا شامل ہو جاتی ہے۔
باطنی طور پر اطلاع ہوئی کہ
"ہمیشہ دائیں ہاتھ سے لین دین کریں،کھانے پینے میں بھی ہمیشہ دایاں ہاتھ ہی استعمال کریں جب کسی کے سامنے کھانا رکھیں(پیش کریں) تب بھی سیدھے ہاتھ سے ہی رکھیں"۔ اس کے بہت سے فوائد ہیں۔ بائیں ہاتھ سے لین دین کے نقصانات یہ ہیں کہ نماز،ذکر اور تسبیحات وغیرہ سے جو نور دل میں پیدا ہوتا ہے,بائیں ہاتھ(الٹا ہاتھ) سے لیکر کھانے،پینے سے وہ نور سیاہی میں بدل جاتاہے، لذت و حلاوت ختم ہونے لگتی ہے اور عبادات و وظائف میں بھی دل نہیں لگتااس سے شیطان بہت خوش ہوتا ہے کیونکہ بایاں ہاتھ شیطان کا ہے اور شیطان تو یہی چاہتا ہے کہ کسی طرح انسان اللہ سے دور ہو جائیں۔
اگر دو یا دو سے زیادہ افراد ایک ہی برتن میں کھا رہے ہوں، تو اپنی طرف سے کھانا چاہیے کیونکہ کھانے کے درمیان برکت کا نزول ہوتاہے. رہنمائے اولیاء مع روحانی نکات
Comments
Post a Comment