🌸 Taleemat : Lasani Sarkar 🌸
تعلیمات: حضرت صوفی مسعود احمد صدیقی لاثانی سرکار رحمتہ اللہ علیہ
آپ رحمتہ اللہ علیہ نے ایک مرتبہ ارشاد فرمایا
عقیدہ صرف سوچ یا تصور کا نام نہیں ہے بلکہ بندے کے دل میں اس کی روح میں اس کی رگ رگ میں جو بات رچ بس جائے اور ایسا پختہ یقین جس میں کبھی کمزوری و کمی واقع نہ ہو اور زبان سے بھی اس کا اقرار ہو عقیدہ کہلاتا ہے
"عقیدہ کی پختگی اور کامل محبت انسان کو ولی بنا دیتی ہے۔"
مکمل نماز، ایمان مفصل، ایمان مجمل اور چھ کلمے ترجمہ کے ساتھ یاد کریں۔ اللہ تعالیٰ کی طرف صحیح رجوع اس وقت ہوگا اور روحانی کیفیات بھی اسی وقت حاصل ہونگی جب یہ علم ہوگا کہ ہم اپنے رب کی بارگاہ میں کیا عرض کر رہے ہیں اور اس سے کیا مانگ رہے ہیں۔
ایک حساب قبر میں جاتے ہی ہوتا ہے اور دوسرا حساب حشر میں۔ قبر وحشر میں نجات کی ایک صورت صدقہ جاریہ ہے۔ اگر کوئی بندہ غلط رسم و رواج آل اولاد یا پیروی کرنے والوں کیلئے چھوڑ گیا اور وہ ان پر عمل کرتے رہے تو قیامت تک ان غلط کاموں کا گناہ اس کے جاری کرنے والے کو بھی ملتا رہے گا جس طرح اچھے کاموں کا اجر و ثواب اس کے جاری کرنے والے کو ملتا رہتا ہے
ایک مرتبہ آپ رحمتہ اللہ علیہ نے دعا کے آداب اور طریقہ بیان کرتے ہوئے مرمایا! اپنے خالق و مالک کے دربار میں دل، دماغ، جسم و روح سبھی کو کاسہ بنالو، نواز دئیے جاؤ گے کبھی خالی اور محروم نہیں رہوگے۔
ایک مرتبہ سالکین کے درمیان گفتگو کرتے ہوئے آپ نے فرمایا: روحانیت میں اصل چیز وفا ہے کہ کس نے کتنی وفا کی، کس حد تک عہد کو پورا کیا۔ طالب صادق کی جب وفا ثابت ہو جاتی ہے یعنی جب وہ ہر طرح کے حالات اور آزمائشوں میں ثابت قدمی کے ساتھ ڈٹا رہتا ہے تو پھر محبوبیت پختہ کر دی جاتی ہے یعنی اس قرب میں لے لیا جاتا ہے۔ آپ نے مزید فرمایا کہ اگر سالک ہر چیز دل و جان سے راہ حق میں قربان کرے گا تب "مومن" بنے گا ورنہ منافق ہے یعنی وہ اپنی محبت کے دعویٰ میں جھوٹا ہے۔
جان لیں مرنے کے بعد بندے کے تمام گناہ ہو سکتے ہیں سوائے قرض کے۔ یہاں تک کہ قرض شہید کا بھی معاف نہیں ہو گا۔ اگر آپ نے کسی کا قرض دینا ہے اور (مسلسل حالات کی تنگی کی وجہ سے) آپ قرض ادا نہیں کرسکتے تو جس کا قرض دینا ہے اس سے معافی مانگ لیں اگر وہ معاف کر دے تو معافی ہو جائے گی۔
لوگوں کے عیب تلاش مت کرو اور انہیں بیان مت کرتے پھرو کیونکہ جو دنیا میں کسی کی پردہ پوشی کرے گا اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی پردہ پوشی کرے گا۔بخیل کی یہ نشانی ہے کہ وہ کسی کی چھوٹی سی غلطی کو آگے لوگوں میں پھیلاتا جاتا ہےاور اپنی چھوٹی سی بات کو بڑھا چڑھا کر بیان کرتا ہے۔ اس لئے کہ دل چھوٹے ہیں تنگ ہیں یعنی ایسا کرنا دل کی تنگی کی علامت ہے۔
آپ رحمتہ اللہ علیہ نے ایک مرتبہ ارشاد فرمایا
"مخلوق خدا کو ہدایت کے راستے پر لانے کی وجہ سے طالب حق کو بہت زیادہ روحانی فائدہ ہوتا ہے حتیٰ کہ پردہ کرنے کے بعد بھی اس کے مقام و مرتبہ میں اضافہ ہوتا رہتا ہے کیونکہ دین کی تبلیغ واشاعت صدقہ جاریہ ہے۔ جب تک عمل کرنے والے عمل کرتے رہیں اس کو برابر ثواب ملتا رہتا ہے اور اس طرح کلی(مجموعی) طور پر اس کی فضیلت بڑھ جاتی ہے"۔
انبیاء کرام علیھم الصلوۃ والسلام کا ذکر کرنا، ان کی سیرت ان کے حالات و واقعات کو عقیدت و محبت کے ساتھ بیان کرنا اور سننا عبادت میں شمار ہوتا ہے۔
بہت سے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اگر علم نہیں تو پکڑ نہیں ہے جبکہ کم علمی اور جہالت کی وجہ سے گمراہ اور گستاخ ہو جانے کا خطرہ ہے جسکی وجہ سے پکڑ میں آجائیں گے۔
اللہ ورسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ قلبی و روحانی تعلق باطن کو پاک و صاف کرتا ہے۔ کیونکہ محبت ایسا نور ہے جو ہر چیز(ظاہری وباطنی گناہ) کوجلا دیتا ہے۔
جو اللہ کے کسی محبوب ولی کی جان بوجھ کر برائی بیان کرےگا تو برائی کرنے والا اس وقت تک نہیں مرے گا جب تک وہ خود اسی برائی میں مبتلا نہ ہو جائے۔
اللہ جل شانہ کا قرب اسے حاصل ہوتا ہے جس کا دل طبیعت کے تقاضوں اور اس کی خواہشات سے پاک ہو جائے یعنی جس کی خواہشات اور ارادے رضائے الٰہی کی تمنا میں فنا ہو جائیں
ایک دوسرے کے خلاف باتیں کر کے اختلاف پیدا نہ کریں۔ ہمارا مقصد اپنی اصلاح کرنا،نیکی کو پھیلانا اور برائی کو روکنا ہے
ہمارے مشائخ نے اعلیٰ اخلاق و کردار اور روحانی فیض کی وجہ سے لوگوں کو مسلمان کیا اور اپنے عمل سے پیار، محبت اور ایثار کا درس دیا اس لیے ان کے تربیت یافتہ لوگ معاشرے کے بہترین افراد بن گئے
ہم میں سے ہر ایک نے یہ دیکھنا ہے کہ ہماری ذات سے دوسروں کو کتنا فائدہ پہنچا اور یہ بھی دیکھنا ہے کہ کہیں ہماری ذات سے کسی کو تکلیف تو نہیں پہنچا۔ ہم نے دوسروں سے فائدہ حاصل کرنے کی نہیں بلکہ فائدہ دینے کی کوشش کرنی ہے۔لوگوں میں آسانیاں تقسیم کریں۔ کسی بھی چھوٹی نیکی کو بھی معمولی نہ سمجھیں۔
باڈر پر جاکر جان قربان کردینا ہی جہاد نہیں،اپنے اردگرد کے ماحول کو پر امن اور خوشگوار بنانا، لوگوں کو برائی سے روک کر نیکی اور بھلائی کے کاموں میں مصروف کر دینا بھی جہاد ہے۔
طریقت تمام تر اخلاص ہے۔ اخلاص اور یقین بہت بڑی عطائیں ہیں۔
جو قبر کو سجدہ کرے میں اس سے بے زار ہوں اور (اس کے اس عمل سے) بری ہوں۔
قبروں کو زیارت گاہ بنائیں، سجدہ گاہ نہیں۔
قدم بوسی جائز ہے، سجدہ نہیں۔
یہاں ہر کسی کو فنا ہے مگر اسے بقا حاصل ہو جاتی ہے جس کا رخ رب ذوالجلال کی جانب ہوگیا اور جس کو اللہ رب العزت کی تجلیات حاصل ہو گئیں۔
نماز بہت سی روحانی اور جسمانی بیماریوں کا علاج ہے۔
"کسی کا عقیدہ درست کردینا افضل ترین صدقہ ہے ایسا کرنے سے روحانی ترقی خودبخود ہوتی رہتی ہے".
"جس کا عقیدہ پختہ اور مضبوط ہو اسے کوئی خواب آئے یا نہ آئے اس کی اسی میں بڑائی ہے".
"جس مرید کا عقیدہ متزلزل ہو وہ مرید نہیں مریض ہے"۔
آج اب ہم زندہ ہیں اور زندگی اللہ کا بہت بڑا انعام ہے۔ اور یہ دنیا کی زندگی بہت مختصر ہے۔ پھر ہم آج یا کل قبروں میں جانے والے ہیں۔ ہمیں اس بات کا خیال کرنا چاہیے اور یہ سوچنا چاہیئے کہ قبر و آخرت میں ہمارے ساتھ کیا ہو گا۔ ہمیں آج ہی سے اس مختصر زندگی جو اللہ اور کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی رضا کے کاموں میں لگا دینا چاہیے اور اپنی خواہشات کو محدود کرنے کی کوشش کرتے رہیں، انھیں اپنے اوپر غالب نہ ہونے دیں۔
اللہ جل شانہ کی بارگاہ میں اہمیت و قبولیت سچائی اور خلوص کی ہے۔ اس لئے عمل میں صداقت و اخلاص ضروری ہے
اللہ کی رضا کیلئے کئے جانے والے کاموں میں عہدہ یا ناموری یعنی عزت و شہرت کی طلب رکھنا اعمال کو ضائع کرنا ہے۔
اخلاق کو بہتر سے بہتر بنانے کی کوشش کریں،اپنی حقیقت کو پہچانیں اور اس پر نظر رکھیں،آپس میں ناگواریوں کو برداشت کریں، غصہ پر قابو پانا سیکھیں اور قوت برداشت کا ثبوت دیتے ہوئے اعلیٰ ظرفی کا نمونہ پیش کریں کیونکہ قوت برداشت بہت بڑی قوت ہے۔
دعائیں قبول نہ ہونے کی وجوہات میں سب سے اہم نماز نہ پڑھنا ہے اور پھر رزق حرام کا استعمال،جھوٹ اور بہتان سے پرہیز نہ کرنا، حقداروں کا حق ادا نا کرنا، حرام و حلال میں تمیز نہ کرنا، دعاؤں میں اخلاص اور یقین کی کمی، توجہ یعنی قلبی رجوع کے ساتھ دعا نہ مانگنا، قول و فعل میں تضاد، ظلم کرنا خاص طور پر گھر کی خواتین (ماں، بیوی،بہن،بیٹی،بہو وغیرہ) سے اچھا سلوک نہ کرنا بھی اس میں شامل ہے۔
ملاوٹ کرنے اور دھوکہ دینے سے بچو اور اللہ تعالیٰ سے بخشش طلب کرتے رہو۔ ہمارے آقا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے " دھوکہ دینے والا اور ملاوٹ کرنے والا میری امت سے خارج ہے"۔ دھوکہ دینے والاگھاٹے(نقصان) میں ہے اور مظلوم (جس کو دھوکہ دیا گیا) فائدے میں ہے۔ جس نے کسی کو دھوکہ دیا حقیقت میں اس نے اپنے آپ کو دھوکہ دیا۔ یعنی جس نے کسی کو دے کر مصیبت میں ڈالا حقیقت میں اس نے اپنے آپ کو بہت بڑی مصیبت میں ڈالا۔
اگر ہمیں کسی گندی چیز کا پتہ چل جائے تو ہم اسے ہرگز نہیں کھائیں گے اسی طرح اگر ہمیں یہ پتہ چل جائے کہ بغیر پوچھے کسی کی چیز کھا لینے سے یا استعمال کرلینے سے آخرت میں کس قسم کی تکلیف کا سامنا ہوگا تو ہم کبھی ایسا عمل کر کے کسی کا دل نہیں دکھائیں گے۔
ہر فتنہ فساد"میں" کی وجہ سے ہو رہا ہے۔
تقریر یا تنقید اصلاح کے لئے ہونی چاہیے نہ کہ فتنہ کے لئے۔
دین کی تبلیغ نشر واشاعت یعنی امر المعروف نہی عن المنکر کو ترک کر دینا اللہ تعالیٰ کے غضب کو دعوت دینا ہے اس طرح نیک لوگ بھی پکڑ میں آ جائیں گے۔
اپنے تمام اعمال کی بنیاد محبت و اخلاص پر رکھیں اور محبت ہی کیساتھ سوچیں،ہر وقت اللہ و رسول صلیٰ اللہ علیہ وسلم کی محبت کا (اپنے باطن میں) غلبہ رکھیں اور اللہ و رسول صلیٰ اللہ علیہ وسلم ہی کی محبت میں ان کی رضا کے لئے مخلوق خدا کے حقوق ادا کریں اور ان کی خدمت کریں۔ بغض بہت بڑی کرم نوازیاں، عطائیں ایسی ہوتی ہیں جو عبادات سے نہیں بلکہ اللہ کی مخلوق کی خدمت اور ان کے ساتھ بھلائی کرنے سے حاصل ہوتی ہیں۔
محبت کتابوں کے پڑھنے سے حاصل نہیں ہوتی۔ یہ دل کے لگاؤ کی بات ہے جتنا بڑھاؤ گے اتنا ہی بڑھے گی۔ محبت ایک دوسرے کو
کھینچتی ہے کیونکہ ہر عمل کا ردِعمل ہوتاہے۔
Comments
Post a Comment